سوال
السلام علیکم مفتی صاحب میرا سوال ہے کہ شریعت ہمیں چار شادیوں کی اجازت دیتی ہے تو جب کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ازواج مطہرات کی تعداد 11 تھی اور امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ازواج کی تعداد نو تھی اور متعدد صحابہ کرام جن کی چار سے زائد بیویاں تھی تو پھر یہ چار کا عدد کس نے متعین کیا اور کب کیا اور اگر چار سے تجاوز کوئی کر جاتا ہے تو شریعت نے اس پر کیا حد لگائی جائے گی ۔سائل ۔ مہر علی
الجواب بعون الملک الوہاب
وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جو تعددِ ازواج کا معاملہ ہے اس میں بے شمار حکمتیں ہماری سمجھ میں اتی ہیں اور جو حکمتیں اللہ تعالی جانتا ہے وہ اس سے کئی درجے زیادہ ہیں۔
ہم اس کو سمجھ بھی نہیں سکتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی کی طرف سے جب حکم ہوتا تھا تو اپ ازدواجی معاملہ فرماتے تھے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اللہ تعالی نے باقاعدہ روک دیا کہ اب آپ نے کسی قسم کا نکاح نہیں کرنا۔
چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا
لَا یَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْ بَعْدُ وَلَاۤ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ ؕ— وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ رَّقِیْبًا ۟۠
اس کے بعد اور عورتیں آپ کے لئے حلال نہیں اور نہ یہ (درست ہے) کہ ان کے بدلے اور عورتوں سے (نکاح کرے) اگر چہ ان کی صورت اچھی بھی لگتی ہو مگر(1) جو تیری مملوکہ ہوں(2)۔ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا (پورا) نگہبان ہے.(سورة الاحزاب آیت 52)
تو یہ متعدد نکاح فرمانا اللہ تعالی کی مشیت پر تھااور اس کے حکم سے تھا۔۔ باقی سیدنا علی ہوں یا کوئی اور صحابی ہوں ایک وقت میں کسی کا بھی چار سے زیادہ شادیاں کرنا ثابت نہیں ہے۔ البتہ چار میں سے ایک بیوی اگر فوت ہو گئی ہے پھر تو دوسری کر سکتا ہے۔ دو فوت ہو گئی ہیں دو اور کر لیں تو ایک وقت میں چار ہیں۔۔
ہاں یہ ہو سکتا ہے چار بیویاں ہوں باقی جو باندیاں (لونڈیاں) ہوتی تھیں تو وہ بیوی کے حکم میں نہیں اتی تھی یعنی وہ جو چار والا عدد ہے اس سے پورا نہیں ہوتا تھا اس کا الگ معاملہ تھا اس کے بھی خاص احکام تھے کہ خاص شرائط پر اس سے ازدواجی تعلقات قائم ہو سکتے ہیں مثلا وہ شادی شدہ نہ ہو اس طرح شرائط ہیں تو بہرحال نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا جو خاصہ ہے جو آپ کی خصوصیت ہے وہ صرف اپ کے ساتھ وابستہ ہے اور کسی کو اس کی اجازت نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مفتی محمد زاہد محمود مدنی
رئیس دارالافتاء زاہدیہ رضویہ انٹرنیشنل