سوال
کیا عورت عدت ختم ہونے سے پہلے آگے نکاح کر سکتی ہے؟
اگر کر سکتی ہے تو کس صورت میں اور اگر نہیں کرسکتی تو کرنے پر کیا شرعی حکم ہوگا؟
الجواب بعون الملک الوھاب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عورت کا پہلے شوہر سے طلاق یا اسکی وفات کی عدت کے دوران دوسرے شخص کے ساتھ کیا گیا نکاح منعقد نہیں ہوگا۔اور اگر کسی نے ایسا کر لیا تو اسکے نتیجے میں قائم کیا گیا میاں بیوی والا تعلق زنا شمار ہوگا
فتاویٰ شامی (حاشية ابن عابدين) میں ہے:
“أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا”.
(کتاب النکاح، باب العدّۃ،مطلب عدة المنكوحة فاسدا والموطوءة بشبهة ، ج:3، ص:516،
البحرالرئق میں ہے :
“أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة ولهذا يجب الحد مع العلم بالحرمة لكونه زنا كما في القنية.”
(كتاب الطلاق،باب العدة لما ترتبت في الوجود علي الفرقه بجميع،١٥٦/٤،ط:دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
“لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج. سواء كانت العدة عن طلاق أو وفاة أو دخول في نكاح فاسد أو شبهة نكاح، كذا في البدائع.”
(كتاب النكاح،الباب الثالث في بيان المحرما،القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير،280/1دار الفكر بيروت)
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مفتی محمد زاہد محمود مدنی
رئیس دارالافتاء زاہدیہ رضویہ انٹرنیشنل
04/02/2024